Monday, October 22, 2012
Hazrat Shahe Hamdaan Rahmatullahe alaihe Ahle Kashmir Par Ahsaanaat Aur Inaayaat Ki Baarishei
حضرت شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ
اہلِ کشمیرپر احسانات اور عنایات کی بارشیں
خورشیداحمد قانون گو
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بحیثیت آخری رسول ونبی تمام موجودات کی طرف آفتاب نصب النہار کی طرح عیاں وجلوہ گرہے اور آپ ؐ کےقلب مقدس پر آخری وحی مقدس بشکل قرآن بنی نوع انسان کیلئے واضح دستورالعمل ہے ۔ عالم اسلام ان بنیادی عقائد میں قائم ہوتے ہوتے بلا امتیاز رنگ ونسل اوروطنیت آپس میں ایسے جڑے ہیں گویا وہ ایک جسم ہے ،اسی تعلق کو جناب نبی اکرمؐ نے اخوتِ اسلامی کا درجہ دے کر ایک قوم قرار دیا اور اسی اخوت کی فکر کو کامل اسلام وایمان فرمایا ۔ جناب نبیآخرالزماںؐ کے تشریف آوری کے بعد سلسلہ نبوت ورسالت اسی ذات اقدس پر اختتام ہوکر تاابد مقفل ہوا۔ ہاں دین مبین کو قائم ودائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہؐ پرکارِ تبلیغ کرکے حوالے سے ایک نیا بت کا سلسلہ جاری کیا ۔ رسالتمآبؐ نے فرمایا میری اُمت کے علماء مانند انبیاء بنی اسرائیل ہیں۔ قارئین حضرات کو یہاں یہ مغالطہ نہ ہونا چاہئے کہ علماء اسلام انبیاء بنی اسرائیل کے مساوی ہیں بلکہحضورؐ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ علماء اسلام کو تبلیغ دین میں یہ امتیاز حاصل ہے نہ کہ نفس نبوت میں؟ کیونکہ نبوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برگزیدہ بندوں پر ایک وہبی عنایت ہے جس میں عبادت وریاضت کا کوئی دخل نہیں ہے۔سابقہ رسل وانبیاء بعد رخصت از بساط ارض اللہ تعالیٰ ماقبل شریعت کو آگے بڑھانے کے لئے کسی دوسرے نبی کو بحیثیت نائب نامزد کرتا ۔ خاتم النبین نبی آخرالزماںؐ کے بعثت کے بعد بربنائے ختم نبوت ورسالت نیابت نبوت منقطع ہوا البتہ یہ پیغام قیامت تک جاری رکھنے کے لئے امت محمدیہؐ کے علماء مجتہدین ومجددین کو بحیثیت فریضہ سپرد ہوا اور وہیں اس کو قیامت تک نبھاتے رہیں گے ،حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعدبحیثیت مجدد اسلام ہی تشریف لائیں گے اور دین اسلام کی آبیاری وتجدید کریںگے کیونکہ دجال مسیح کے خرافات وقبیح بدعات سے دین کا حلیہ بگڑ گیا ہوگا۔ٹھیک اسی طرح فرمانِ رسولؐ کے رو سے ہرسو سال کے بعد ایک مجددکی تشریف دین اسلام کے لئے رحمت وقوت بخشی کی ایک خاص انعام ہوگا۔اگرچہ اس دعوت کی ذمہ داری کسی خاص طبقے سے وابستہ نہیں ہے تاہم اہل بیت طاہرین وصحابہ کبارؓ نے حضورؐ کے قریب ہونے کے لحاظ سے اس ذمہ داری کو دل وجان سے قبول کرتےہوئے رخصت کوچھوڑ دعوتِ عزیمت کی راہ قبول کی ۔ دعوت دین اگر اپنے ذاتی ماحول میں دی جائے وہ بھی ایک احسن عمل ہے مگر مومن کے تقریب الٰہی کے لحاظ سے دعوت تبلیغ میں شدت ہوتی ہے اسی لئے اس راہ میں نرمیکے بجائے اعمال مشقت کو ترجیح دیتے ہیں ۔علماء اولین بالخصوص خاندانِ نبوت نے اس کو اختیار فرمایا۔
ان ہی میں سے حضرت امام ربانی امیر کبیر میر سیّدعلی الہمدانیؒ تھے جنہوں نے اعلیٰ اتباع رسولؐ سے تبلیغ ودعوت کے اوصاف حاصل کئے تھے اوردین اسلام کی ترویج میں ایک اہم ومثبت کارکردگی انجام دی۔ اگرچہ آنجنابؒ نےربع مسکن کی سیاحت کرکے اس فریضہ کو انجام دیا باوجود آں کشمیر میںاشاعت اسلام ان کی اہم وخصوصی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ کشمیر میں ایک زمانے میں بدھ مت ودیگر مذاہب کے علوم وعقائد کے مراکز کو پورے ہندوستان میں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس ماحول میں اخلاقی ضوابط سے دعوت اسلام پیش کرنا ایک کاردارد مسئلہتھا۔ اگرچہ شاہ ہمدانؒ سے چالیس سال قبل حضرت سید عبدالرحمان شاہ بلبل ؒ کے دستِ مقدس سے تبلیغ وترویج اسلام کی داغ بیل ڈالی گئی تھی مگر اس قلیل وقت میں نفاذشریعت پوری طرححاوی نہیں ہوئی تھی ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ بادشاہ وقت سلطان قطب الدین کے عقد نکاح میں مسلمان ہوتے ہوئے بیک وقت دو بہنیں نکاح میں تھیں جو شریعت اسلام میں حرام ہے بلکہ اس کے علاوہ غیر اسلامی رسومات سے بھی یہ نومسلم جماعت الگ نہیںہوئی تھی ۔ شاہِ ہمدان کی طرف سے مکمل شرعی نفاذ اجتماعی قبولِ اسلامکے ساتھ کے علم ،تہذیب ،تمدن ،حرفت ،صنعت، معاشی زندگی ، لباس ، زبان ورسم الخط پر اسلام اثر قبول کرانے میں اس قوم پر ایک احسان عطا کرتے ہوئے کشمیر کو نقش دنیا میں ایران صغیر میں تبدیل کردیا۔ بقول علامہ اقبال ؒ ؎
آفرید آں مردِ ایران صغیر
باہنرہائے غریب و دلپذیر
خطہ راں آں شاہ دریا آستین
داد علم وصنعت وتہذیب دین
اہلِ کشمیر کو ذہن نشن کرنا چاہئے کہ ایسی شخصیت ساداتِ کارواں نور لے کر دُور دراز علاقہ ہمدان سے قلیل وقت دعوت دین پیش کرکے کشمیر کو قلعہاسلام کا رتبہ دے کراورجانشین پیغمبرخداؐ کا ثبوت دیتے ہوئے ہمارے لئے باراں رحمت ثابت ہوئے،جس کے لئے ہم نسل بہ نسل اس عظیم احسان کے مرہون منت ہیں ۔ حضور اقدسؐ نے فرمایا ہے جومحسن کا شکریہ ادا کرنہ سکے وہ خدا کا شُکرہرگز نہیں کرسکتاہے ۔ شکر کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم چند مخصوص دن درودواذکارکرکے اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کریں بلکہ شکر کا وسیع معنی کہ ہم اسی طرح دین اسلام اور ان کے لائے ہوئے اصولِ اشاعت ِ دین کو اپنی محنت واخلاص سے قائم ودائم رکھیں ۔ ایسے شخصیات اللہ تعالیٰ سینکڑوں سال کے منصہ شہود میں لاکر دین کی حفاظت اور بدعات وخرافات سے بساط ارض کو پاک فرماتاہے اور ملت وقوم کو اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے پابند بناتا ہے۔ جب قوم کو یہ داعیانہ کردار نبھانے میں تساہل ہوتوان سے یہ نعمت چھین لی جاتی ہے یا ایسے لوگوں کو مسلط کیا جاتاہےجو اس طریقے کا حلیہ ہی بگاڑ دیتے ہیں۔ حضرت امیرکبیر میر سیّدعلی ہمدانیؒ کے القاب یوں ہی نہیں تھے بلکہ اگر ان کی زندگی پر قلم اٹھائے جاتےتو واقعی ایک ضخیم دفتر بن جائے گا۔ اس عظیم داعی ٔاسلام کے یومِ ولادت کو کسی عارف باللہ نے ابجدی حساب سے’’رحمت اللہ‘‘سے رقم کیا ۔ واقعی شاہ ہمدانؒ رحمۃ اللعالمینی کے بحربیکراںسے اہل کشمیرکے لئے جوئے دریائے رحمت ثابت ہوئے ۔ آپؒ 714ہجری درخانہ حاکم ہمدان سید شہاب الدین ہمدانیؒ اور سیدہ فاطمہؒ کے بطن مبارک سے تولد ہوئے ۔ نام علی ملقب ازامیر کبیر اور کشمیر میں شاہ ہمدان سے معروف ہوئے ۔ حضرت مخدوم جہاں گشت سیّدجلال الدین بخاریؒ نے ان کی مدح میں کہاہے ؎
احوال دِلاے شاہ نگویم کے نہ دانی
باللہ ہمدانی کہ توشاہِ ہمدانی
اس طرح شاہ ہمدانؒ کا نام اقدس اہل کشمیر کے مردوزن کے زبانوں پر اتنا وردوعزیز ہوا کہ ہرخوشی کے موقعے پر اپنے آپ کو اس محسن کشمیرکے نام نامی سے تسکین حاصل کرتے ہیں ع
شاہِ ہمدانؒ گرۂ ژامئے ازمہ تمنا درامئے
اگرامیرؒ سے پکاریں گے واقعی وہ ایساامیر تھا جس کے قلب وجگر میں امت محمدیہؐ کے غرباء ومساکین جنہیں توحید اخلاق روحانیت تزکیہ نفس بے ہنری تہذیب علم تمدن وثقافت کی غربت تھی،ایک نظرِ کرم ودستِ سخاوت سے اس قوم کو تا ابد مالامال کردیا۔
رشک گلزار ارم کشمیر شد
چوں مشرف از قدوم پیرشد
اگر کبیر سے پکاریں گے تو واقعی تمام ظاہر علوم ’’ذخیرۃ الملوک ‘‘شرحِ فصوص الحکم مودۃ العزبی وسینکڑوں نصیحت آموز رسالہ جات وباطنی علوم میں’’چہل اسرار ‘‘ان کے عالم ربانی ہونے میں شہادت کافی ہے ،کبرونخوت سے بے نیاز عفووکرم کے پیکر تھے ، ہر رات کے آخری پہر یہ رباعی پڑھا کرتے تھے ۔
بر کہ مالا رنج داروراحت وبسیار باد
بر کہ مالا ِیارنبود ایزداورا یا دباد
برکہ در راہِ مرا خارے نہد از دشمنی
برگلے کزباغ عمرش بشگفت بے خارباد
اے اللہ !جس نے مجھے غم دیا اسے راحت دے ،جو میرا دوست نہ بن سکا اس کو اپنا دوست بنا ،جس نے دشمنی کی وجہ سے میرے راستے میں کانٹے بچھائے ،تو اس کے لئے پھول کھلا جس میں کانٹا نہ ہو ۔ یہ ان صفات مبارک کا اثر تھا جو ان کے جدامجدجناب سرورِعالم فخر موجودات ؐ نے طائف کےمیدان اہل طائف کے ذریعے تکلیف رسانی کے وقت فرمائے اور یہی سیرتمقدس تمام امت محمدیہ بالخصوص شاہہمدانؒ کے محبان کے لئے مشعل راہ ہے ۔
مگر افسوس !ہم اسی راہ سے مادی غلبہ کے وجہ سے گمراہ ہوئے ، ان کی تعمیر کردہ خانقاہیں تزکیہ نفس علوم ظاہری وباطنی کے تحصیل کے مراکز تھے آج یہ مسالکین وصالحین کی راہ ترقی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہماری غفلت اور سینکڑوں سالہ سیاسی انتشار نے ان تمام بے بہا ثقافتی تہذیبی وتمدنی وعلمی خزانوں کوشب خون مارتے ہوئے ہماری تاریخ کومسخ کردیا۔ شاہ ہمدانؒ کی حقیقی محبت او رآنجناب کے تئیں اصل نذرانۂعقیدت یہی ہے کہ ہم اپنے ضمیروں کوجھنجھوڑ کر یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے آج تک کیا کھویا اور کیا پایا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment